آج رات ، کئی مہینوں بعد ۔۔۔
کھلے آسمان اور ستاروں کے نیچے بیٹھے ، ایک خوبصورت داستان ۔
رسول اللہ ﷺ کے ایک صحابی تھے أبو ثعلبہ خُشمیؓ ۔
جو بات انہیں سپیشل بناتی ہے وہ یہ ہے کہ ابو ثعلبہؓ ، وہ واحد صحابی ہیں ۔۔۔
جن کے متعلق ہمیں کنفرم ہے کہ وہ اپنے دور میں ایک طرح کے ایسٹرانومر ۔۔۔
یعنی آسمان اور ستاروں میں غور و فکر کرنے والے شخص تھے ۔
ان کا روز کا معمول تھا کہ رات کے سناٹے میں صحراء کی طرف چلے جاتے ۔۔۔
اور دیر تک آسمان اور ستاروں کو دیکھا کرتے ، ان میں غور و فکر کیا کرتے تھے ۔
اور پھر اللہ کی بنائی ہوئی اس کائینات کی تعریف کرتے ہوئے سجدہ ریز ہو جاتے تھے ۔
خوبصورت بات دیکھیئے کہ ان کی وفات بھی ۔۔۔ ایسے ہی ایک رات سجدے کے دوران ہوئی تھی ۔
(کتاب الأصابہ فی التمیز صحابہ ج ۴ ص ۳۰)
ابو ثعلبہؓ بتاتے ہیں کہ میں المائدۃ کی اس آیت کے متعلق اکثر سوچا کرتا تھا کہ اس کا مطلب کیا ہوا ۔۔۔
کہ اے ایمان والو ! اپنی فکر کرو ۔۔۔ (المائدۃ (۵:۱۰۵)
تو میں نے رسول اللہ ﷺ سے پوچھا اور آپؐ نے فرمایا ابو ثعلبہ !
اچھی بات کا حکم دو اور برائی سے منع کرو یہاں تک ۔۔۔ کہ تم بے علم لوگوں کی اطاعت ہوتے دیکھو ۔
دنیا کو ترجیح بنتے اور ہر آدمی کو ۔۔۔ صرف اور صرف اپنی رائے پسند کرتے دیکھو ۔
تو اپنے آپ کو بچاؤ ، اپنی فکر کرو ۔۔۔ اور لوگوں کو ان کے حال پر چھوڑ دو ۔
ابو ثعلبہ ! تمہارے تعاقب میں ایسے دن آ رہے ہیں ۔۔۔
کہ ان میں صبر کرنا ایسے ہو گا کہ جیسے ہاتھ میں آگ پکڑی ہوئی ہو ۔
اور اس وقت نیک عمل کرنے والے کو پچاس لوگوں کے برابر کا اجر ملے گا ۔
میں نے حیران ہو کر پوچھا ، یا رسول اللہ ﷺ ! ۔۔۔
ہم میں سے پچاس لوگ یا اُن کے اپنے پچاس لوگ ؟
تو فرمایا ، تم میں سے پچاس لوگ ابو ثعلبہ ۔
یہ روایت الجمع الفوائد و مجمع الزوائد میں ہے ، ساتویں جلد اور صفحہ نمبر ۳۷۲ پر ۔
اور جب میں اسے اپنی کتاب میں لکھ رہا تھا تو یوں لگا کہ جیسے آج کل ہی حالات پڑھ رہا ہوں ۔
پچھلے چند دنوں میں کچھ پتہ نہیں چل رہا کہ سچ کیا ہے اور جھوٹ کیا ۔
ہر شخص اپنی اپنی رائے پہ پکا ٹھکا ہوا بیٹھا ہے کہ جو میں مان رہا ہوں بس وہی سچ ہے ۔
جبکہ حقیقت کیا ہے ؟ ۔۔۔ نہ تو وہ کسی کو پتہ ہے اور نہ ہی کسی کو اس کی کوئی پرواہ ۔
ایسے شور و غل میں کتنا سکون دیتا ہے ۔۔۔
کھلے آسمان نیچے بیٹھ کر ستاروں کو دیکھنا ۔۔۔
ربّ کی بنائی اس کائینات میں خوبصورت تخلیقات ڈھونڈنا ۔
اور اپنے پیارے نبی ﷺ کی زندگی سے خوبصورت واقعات سنانا ۔
پڑھنے کے لیے آپ کا شکریہ
فرقان قریشی
Source from Furqan Qureshi Blogs Facebook Profile
Jeety rahein khush rahein Seearh series Buht he kamal hai MashaAllah 💜💜💜💜🤲🤲🤲🤲
Abhi main bhit cht pr baith kr aap k research work ko hi yad kr rha tha sir 💖💖💖
یقیناً ایسے لمحات میں
حبیب الله ﷺ کی باتیں ہی ھیں جو حوصلے کا سبب ھیں، اور اس گھٹا اور دھند میں باعث رحمت ھیں،
اللّٰہ تعالیٰ ہمیں اپنے حبیب ﷺ کی محبت عطا فرمائے آمین ،
اللّٰہ تعالیٰ آپ کو بھی سلامت رکھے آمین
JazakAllah beta boht piyari baten boht acha lgta h ap ki post parh kr dil ko ek khooshi milti h khoosh rho Abad rho 💖
Jazaak Allah khair for this post..ye achi baat hai k AP baton baton main apna taa’rruf krwatay ja rhy hn.. pehlay apnay bataya k you are a PhD, phir bataya k apnay khowab ki taabeer ka ilm b seekh rakha hai, now you are telling that you are writing a book too..ma Sha Allah.. may Allah bless you with happiness in both the worlds.ameen
Furqan Qureshi Blogs
مرشد، انسان تو پھر انسان ہے، قران اور احادیث کو لے کر لوگ سوال تو اٹھاتے ہی ہیں۔ قران تو ان لوگوں کو راہ پر کہتا ہے کہ جو بس غیب پر ایمان لے آئیں۔ (میں لے آیا غیب پر ایمان)
پر جو آج کی تحقیق اور علم ہے، اس کو دیکھ کر اگر کوئی سوچے اور کوئی سوال اٹھا لے، تو کیا وہ ایمان سے فارغ ہے؟؟؟
اللہ پاک ہمارے پیارے وطن کو قائم و دائم رکھے آپ کو صحت و تندرستی عطا فرمائے کہ آپ سیرۃُ النبی اور اس طرح کے اور موضوعات پر اسی طرح محنت سے کام کرتے رہیں اور ہمارے معلومات میں اضافہ کرتے رہیں آمین
اللہ کی کائنات میں غور و فکر کرنے والے ذہن ناپید ہوتے جا رہے ہیں ، کچھ حد تک دلچسپی لیتے بھی ہیں تو چند لمحات میں سب ختم یا ان کی حد ہی یہی ہے چونکہ ہر ذی روح کی حدود متعین ہے مگر کوشش اور دعا اثر رکھتی ہے اور ہمیشہ کوشاں رہنے کی ضرورت ہے ، پھر وہ لوگ آتے ہیں جو بے مثل بصارت رکھتے ہیں ، نفع اٹھاتے ہیں اور اللہ کی عطا کردہ نعمتوں میں سے اس نعمت کو بھی اللہ کی راہ میں تقسیم کرتے ہوئے باقیوں کے لیے آسانی کا سبب بنتے ہیں ، مالک سلامتی میں رکھے تمام ایسوں کو ، اجرِ عظیم عطا فرمائے
آمین ثم آمین یارب العالمین
“میں فرقان بھائی کو اللہ کا واسطہ دے کر کہتا ہوں…”
اے فرقان بھائی!
میں آپ کو اُس رب کا واسطہ دیتا ہوں،
جس نے اہلبیتِ اطہار کو قرآن کی آیت “اِنما یریدُ اللہُ لیُذهب عنکمُ الرجسَ اہلَ البیتِ و یُطَہرَکم تطہیرا” میں پاکیزگی کا اعلیٰ مقام عطا فرمایا۔
کیا آپ کو خبر ہے کہ انہی پاک ہستیوں پر کیسے کیسے ظلم ڈھائے گئے؟
کس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نواسی، بی بی زہراؑ کے دروازے کو جلایا گیا؟
کیسے علیؑ، حسنؑ، حسینؑ اور ان کے جانثاروں کو ظلم و ستم کی چکّی میں پیسا گیا؟
کیا امت بھول گئی وہ ننی سی سکینہؑ جو خیموں میں جلتے انگاروں سے ڈری؟
کیا ماؤں، بہنوں، بیٹیوں کی چادریں چھیننے والے انسان تھے؟
فرقان بھائی!
یہ تاریخ کا ایک سیاہ باب نہیں،
بلکہ پوری امت کے ضمیر پر ایک سوال ہے۔
کیا ہم حق کے ساتھ کھڑے ہوں گے؟
یا صرف فرقوں میں بٹ کر، ظلم کی چپ سادھ لیں گے؟
میں آپ سے، اللہ کے واسطے، یہ گزارش کرتا ہوں:
ایک ایسی ویڈیو بنائیں جو صرف فرقان بھائی کی آواز نہ ہو،
بلکہ امت کے سوئے ہوئے ضمیروں کو جھنجھوڑنے والی صدا ہو۔
Allah Pakistan or mery qoom ki hifazat karey.